Please login...
نام : بی اے شاکر
محترم بی اے شاکر صاحب نے 1990 ءمیں بطور باکسر پاکستان آرمی میں شمولیت اختیار کی۔ ملی جذبہ سے سرشار اس شاندار کھلاڑی نے 12 سال تک قابل فخر فرائض سرانجام دئیے۔ لیکن دسمبر 2002 ء کے ایک ناگہانی دن 11 ہزار وولٹ کی بجلی کی لائن نے ، اچانک انہیں ایک سال تک جاری رہنے والی موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا کر دیا۔اور یہ حادثہ ان کی دونوں بازوؤں محرومی پر منتج ہوا۔لیکن یہ حادثہ ان کی ہمت اور جذبہ اور عزم میں لغزش پیدا نہ کرسکا۔ آرمی سے فراغت کے بعد DHA لاہور میں سیکورٹی سپروائزر کے فرائض سر انجام دینے لگے۔ ایک ہمدرد اوردرد مند شہری ہونے کے ناطے خصوصی افراد کی فلاح اور ان مشکلات میں کمی لانے کے لئے سپرٹ فاؤنڈیشن کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جو خصوصی افراد کی فلاح، بحالی اور امداد کے ذریعے انہیں معاشرے کا دست نگر بنانے کی بجائےایک فعال اورمفید حصہ بنانےکے لئے کوشاں ہے۔ شاکر صاحب دیگر خصوصی افراد کے لئے عزم ، ہمت ، جذبہ اور استقلال کی ایک روشن مثال ہیں۔جو حوصلے ہار کر دوسروں کے دست نگر اور معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ سعداللہ شاہ نے شاید ذیل کے اشعار انہی کی شان میں لکھے تھے: اے میرے دوست!ذرا دیکھ میں ہارا تو نہیں میرا سر بھی تو پڑا ہے مری دستار کےساتھ وقت خود ہی یہ بتائے گا کہ میں زندہ ہوں کب وہ مرتا ہے جو زندہ رہے کردار کے ساتھ ہم محترم بی اے شاکر صاحب کے بے حد مشکور ہیں کہ انہوں نے چغتائی پبلک لائبریری کے ہومین لائبریری پروجیکٹ میں اپنے آپ کو بطور ایک انسانی کتاب پیش کیا۔ تا که دیگر ایسے قارئین جو حادثات سے دوچار ہوئے وہ ان ہمت ، جذبہ ، عزم اور حوصلہ کا سبق سیکھ سکیں ۔اور رہنمائی حاصل کر سکیں۔ عام افراد ، شہریوں اور خصوصی افراد سے متعلق فلاحی اداروں ، فیصلہ ساز اداروں،حکومت و دیگر کو خصوصی افراد کی ضروریات اور درپیش مسائل سے آگاہی فراہم کر سکیں۔
اس انسانی کتاب کی اشاعت، پاکستانی معاشرہ اور حکومتی فیصلہ ساز اداروں کو بتا ئے گی کہ اگر دونوں ہاتھوں سے محروم فرد کو بائیومیڑک نہ ہونے کے باعث سم کارڈ کے اجراء، اور بینک ودیگر خدمات کی فراہمی سے محروم کر دیا جائے تو اس کے دل پر کیا بیت رہی ہوتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا قاری یہ پرکھے کہ اگر بینک ،لائبریری، ہسپتال اور تعلیمی اداروں و دیگر عمارتوں میں کسی کے داخلے کے انتظامات نہ ہونے کے باعث مایوس واپس لوٹ جانا والا خصوصی فرد کس کرب کا سامنا کرتا ہے۔وہ اپنے قاری کو روشناس کروانا چاہتے ہیں کہ جب خصوصی افراد کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کا خاطر خواہ انتظام نہ ہو، ادارے خصوصی افراد کو لایسنس کا اجراء روک دیں ،ان کے لئے اعلیٰ تعلیم کے مواقع مفقود ہوں، دیگر ممالک کی طرح ٹیکس میں کوئی چھوٹ نہ ہو تو احساسات کیا رنگ اختیار کرتے ہیں۔
پسماندہ اور تنگ نظر معاشرے خصوصی اور بے سہارا افراد کو بوجھ اور نکارہ تصور کرتے ہوئے تعصب اور دقیانوسیت کا نشانہ بناتے آئے۔ جسے تعلیم ، سماجی آگاہی اور باہمی بھائی چارہ کی سوچ کے فروغ سے کم کیا جا سکتا ہے۔
زندہ معاشرے خصوصی افراد کو بوجھ کی بجائے ۔انہیں کارآمد اور مفید شہری بنانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ایک فلاحی معاشرہ کے قیام کا خواب ایسے افراد کو فعال، محرک بنائے بغیر شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔