Please login...
نام : حیدرعلی
’’میں بصارت سے محرومی کو دل سے قبول کرتا ہوں لیکن کم فہمی یا ناداں ہونےسے انکار ی ہوں۔ میں بھی آپ ہی کی طرح دانا ،عقلمند، منطقی اور ذہین ہوں۔ میری اندھی آنکھوں نے مجھے اپنے اردگرد کی چیزوں کو سننے، چکھنے، چھونے اور سونگھنے سے کبھی نہیں روکا۔ میں آپ کو اپنےخیالات، احساسات اور اپنی اندھی آنکھوں سے زندگی کے حسیں رنگوں کو پرکھنے کا موقع فراہم کر سکتا ہوں۔" یہ لاہور کے نابینا حیدر علی کے جذبات ہیں۔ وہ ہمارے معاشرے میں ایک نابینا شخص کی زندگی کےتلخ حقائق ، تجربات، محرومیوں اور ناانصافیوں سے لوگوں کو متعارف کرانا چاہتےہیں۔ انہوں نے چغتائی پبلک لائبریری کے پروجیکٹ ہیومن لائبریری میں اپنے آپ کو ایک کھلی انسانی کتاب کے طور پر رضاکارانہ پیش کیا ہے۔ تاکہ دیگر لوگ ان سے کچھ سیکھ سکیں۔
انسانی جسم میں دماغ کی خوراک کے لیے پانچ حواس ہوتے ہیں اور ایک حس کی عدم موجودگی کسی انسان کو باقی نسل کی صلاحیتوں سے جدانہیں کر سکتی۔ لہٰذا نابینا شخص کو بھی معاشرے میں قابل احترام انسان سمجھا جانا چاہئے۔ نابینا افراد کرنسیوں کی شناخت کر سکتے ہیں، ملازمتیں انجام دے سکتے ہیں، اور احساس کے لحاظ سے اپنے روزمرہ کے لباس میں فرق کر سکتے ہیں۔ وہ تاش کھیل سکتے ہیں، پیانو پر گانے کا مزہ لے سکتے ہیں، اشیائے خوردونوش کی خریداری کر سکتے ہیں اور اپنا کھانا پکا سکتے ہیں، اوقات کی پیروی کر سکتے ہیں، داڑھی مونڈ سکتے ہیں اور ہم سب کی طرح اپنی ٹائی خود باندھ سکتے ہیں۔ لہذا انہیں سنا اور سمجھا جانا چاہئے تاکہ دیگر لوگوں میں معذور افراد کے لئیے محبت، شفقت، ایثار اور برابری کے جذبات پیدا ہو سکیں۔
معاشرے میں تعصب اور دقیانوسی تصور پایا جاتا ہے کہ اندھا پن کا شکار شخص بینائی والے لوگوں کے مقابلے میں کم موثر، کندذہن اور کم فہم ہوتا ہے۔ نابینا افراد اپنی صلاحیتوں کے بجائے قسمت اور رحم کے بل بوتے پر روزگار تلاش کرتے ہیں۔
ایک پیدائشی نابینا کے پاس بصارت والے شخص کی نسبت سوچ کی پروسیسنگ اور ارتکاز کے لیے زیادہ دماغ ہوتا ہے کیونکہ وہ غیر ضروری چیزوں کو نہیں دیکھ رہے ہوتے۔