Please login...
نام : ہمایوں یونس
ہمایوں یونس صاحب پیشے کے لحاظ سے ایک تاجر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک خوبصورت بیٹے کی شکل میں اولاد نرینہ سے نوازا۔ جس کا نام اسماعیل یونس ہے۔جو دیگر بچوں کی طرح معمول سے پرورش پا رہا تھا۔ لیکن 3 سال کی عمر میں ایک مخصوس عارضہ "آٹزم(Attention Deficit Hyperactivity Disorder)(ADHD) کی تشخیص ہوئی۔ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر کے ایک ہزار افراد میں دس کو اس عارضہ میں مبتلا پایا گیا۔لڑکیوں کی نسبت لڑکوں میں اس کی شرح پھیلاؤ زیادہ ہے۔اس عارضہ میں مبتلا بچے غیر معمولی طور پر فعال (Hyperactive) جلد باز(Impulsive)، خاموش بیٹھنے سے قاصر، مسلسل بے چین اور بغیر سوچے سمجھے کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ توجہ مرکوز کرنے میں دشواری اور توجہ کے مختصر دورانیے جیسی علامات رکھتے ہیں۔ یہ عارضہ سیکھنے ، مواصلات ،خود اعتمادی ، معاشرتی تعامل و رابطے اور حرکات سکنات کو بھی متاثر کرتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اس عارضہ کو عارضہ تسلیم ہی نہیں کیا جاتااوراس سے متعلق کوئی مستند علاج و معلومات و آگہی نا دستیاب ہے۔اس عارضہ سے متعلق بعض تشخیصی ٹیسٹ صرف بیرون ملک ہی دستیاب ہیں۔ لیکن ہمایوں صاحب نےدانشمند باپ ہونے کے ناطے آٹزم کے متعلق آگاہی اور علاج کی فراہمی کو پاکستان میں یقینی بنانے کی کوشش کی ۔ انہوں نے آٹزم کے علاج سے متعلق پر انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات سے تحقیق کا آغاز کیا، اس کے شکار دیگر بچوں کے والدین پر مشتمل ایک گروپ تشکیل دیا۔پاکستان و بیرونی دنیا میں دستیاب معلومات و وسائل تک رسائی حاصل کی، امریکہ سے ایک ماہر آٹزم ٹرینر کی خدمات حاصل کیں۔ایک ہمت اور جذبہ کے تحت نا صرف خود اپنے بیٹے کا علاج کیا۔ بلکہ اس عارضہ میں مبتلا دیگر بچوں کے علاج و بہبود کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے۔ اور اپنے تعلم و تجربہ و مشاہدہ سے حاصل شدہ تنائج کی بنیاد پر ایک ہمدرد اوردرد مند شہری ہونے کے ناطے آٹزم کے شکار بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے والدین مشکلات کو بھانپتے ہوئے ۔ اپنے حلقائے احبا ب اور دیگر مخیر و صاحب ثروت حضرات کے تعاون سے Society for Awareness of Autism کے نام سے ایک ایسے ادارے کی بنیاد رکھی ۔جو پاکستان میں آٹزم پر فقیدالمثال خدمات سرانجام دے رہاہے۔یہ ادارہ آٹزم سے متعلق آگاہی، تعلیم وتحقیق کے ساتھ ساتھ اس عارضہ کی تشخیص اور مبتلا بچوں کے علاج، تعلیم وتربیت، فلاح، بحالی اور امداد کے لئے مسلسل کوشاں ہے۔ چغتائی پبلک لائبریری کی انتظامیہ ہمایوں یونس صاحب کی ممنون ہے کہ انہوں نے چغتائی پبلک لائبریری کے ہیومن لائبریری پروجیکٹ میں اپنے آپ کو بطور ایک انسانی کتاب پیش کیا۔ تا کہ آٹزم کے شکار بچوں کے والدین ، معالج، نفسیات و طب کے محقق یا اس عارضہ سے متعلق علاج گاہیں چلانے والے پیشہ ور افراد ،عام افراد ، عام شہری اور خصوصی افراد سے متعلق فلاحی اداروں، فیصلہ ساز اداروں،حکومت و دیگر کو آٹزم کے شکار بچوں کے مسائل ، بحالی ، تعلیم ، ضروریات اور درپیش مسائل سے آگاہی فراہم کی جا سکے۔
اس انسانی کتاب کی اشاعت، ماہرین نفسیات ، معالجین عصاب ، بچوں کی فلاحی تنطیموں اور عام افراد کو پاکستانی معاشرہ اور حکومتی فیصلہ ساز اداروں کو "آٹزم " کی وجوہات ، بحالی ، ضروریات، ادویات سے متعلق مفید معلومات و آگاہی فراہم کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ آٹزم کے شکار بچوں کے والدین ، معالج، نفسیات و طب کے محقق یا اس عارضہ سے متعلق علاج گاہیں چلانے والے پیشہ ور افراد ان علم ، تجربہ ، تحقیق ، دانش سے فیض حاصل کر سکیں گے۔
پاکستان آٹزم کی بروقت تشخیص وعلاج سے عدم آگاہی کے باعث اس میں مبتلا بچوں کو سکول اور گھر میں درست طور پر توجہ نہیں دی جاتی۔والدین اور اساتذہ تعلیم و تربیت میں مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔اس عارضہ سے متعلق معلومات، تشخیص ، علاج و بحالی کے انتظامات نہ ہونے کے باعث اس میں مبتلا معصوم بچے تعمیر شخصیت کے دوران کئی لحاظ سے کمی یا عدم توجہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ پسماندہ اور دیہی آبادی میں ایسے بچے کو تضحیک کا نشانہ بنایا جا تا ہے۔ در اصل آٹزم سے متعلق تعصب و دقیا نوسیت کی وجہ معاشرتی پسماندگی و کم علمی و تنگ نظری ہے۔
آٹزم ایک قابل تشخیص و علاج عارضہ ہے۔ جسے تعلیم ، سماجی آگاہی اور والدین کی راہنمائی کرکے شکست دی جا سکتی ہے۔اور اس میں مبتلا بچوں کو سماجی آگاہی، ہمت ، حکمت و دانش مندی سےکار آمد ، فعال ، محرک اور مفید شہری بنایا جا سکتا ہے۔