Please login...
نام : سرمد حسن
محترم سرمد حسن کو مطالعے کے لیے پیش کیا۔ سرمد حسن ہماری انسانی کتاب ہیں۔ جن کی عمراس وقت 22 سال ہے اور وہ پیدائشی معذور ہیں۔ وہ پاوں کے سہارے چل پھرنہیں سکتے۔ مزید مشکل اس وقت ان پڑی جب 8 سال کی عمر میں اُن کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنی معذوری کو اپنی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بننے نہیں دیا اور نہ ہی حالات کی تلخی سے گھبرا کرہمت ہاری ہے۔ جسمانی معذوری کی وجہ سے معاشرے کے تلخ رویوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا ہے۔ وہ ایک باہمت، حوصلہ مند نوجوان ہیں جو معذوری کو شکست دے کر اپنی منزل حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ عزم، ہمت، جذبہ اوراستقلال کی ایک روشن مثال ہیں۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ وہ اپنے والدین کے تعاون کے بغیراس معاشرے کا سامنا نہیں کرسکتے تھے۔ اپنی تمام ترمعذوری اور کمزوریوں کو پس پشت ڈال کر محنت، لگن اور یقین کے ساتھ جد و جہد جاری رکھی۔ میٹرک تک کی تعلیم، سپیشل ایجوکیشن انسٹیٹیوٹ لاہور سے حاصل کی اور ایف اے گورنمنٹ کالج لاہور سے پاس کیا۔ آج کل پنجاب یونیورسٹی سے بیچلر کی ڈگری حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ اپنا ایک یوٹیوب چینل بھی بنایا ہوا ہے جس میں وہ کرکٹ میچز کے متعلق تبصرہ و تجزیہ کرتے ہیں اور موٹیویشنل ویڈیوز بناتے ہیں۔
وجہء اشاعت سرمد حسن اُن لوگوں کے لئےمشعلِ راہ ہیں جو حوصلے ہار کر دوسروں کے دست نگر اور معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں یا زندگی سے مایوس ہوجاتے ہیں اور دوسروں کی طرف رحم طلب نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ سرمد حسن نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ ناکامی کی وجہ معذوری نہیں، مایوسی ہے، اپنی محرومی کو طاقت بنائیں۔ اگر آپ معاشرے میں عزت و وقار سے جینا چاہتے ہیں تو ہمت اور حوصلے سے کام لیں، اپنی کمزوریوں، خامیوں کی نہ تو تشہیر کریں اور نہ ہار مانیں۔ یہی کامیابی اور کامرانی کی علامت ہے۔ باہمت، باحوصلہ، غیرت مند، باحیا لوگ گرتے بھی ہیں تو فوراً سنبھل جاتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ دنیا والے انہیں روند کر آگے نکل جائیں، وہ اٹھ کر آگے بڑھنے کے لیے کمر کس لیتے ہیں۔
تعصب اور دقیا نوسیت پسماندہ اور تنگ نظر معاشرے خصوصی اور بے سہارا افراد کو بوجھ اور نکارہ تصور کرتے ہوئے تعصب اور دقیانوسیت کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔ اُن کا سہارا بنے کی بجائے ان کا مذاق اُڑاتے اور ان پر آوازیں کسنے ہیں اور طنزو مزاح کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کو متحرک اورمؤثر زندگی گزارنے کے لئے جذبہ عطا نہیں کرتے۔ معاشرے میں اس تعصب اور دقیا نوسیت کوختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
حقیقت معاشرہ جن لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھ رہا ہوتا ہے ان کو قدرت نے بہت ساری صلاحیوں سے نواز رکھا ہوتا ہے وہ مالی مسائل، پریشانیوں اور مختلف جسمانی عارضوں کی وجہ سے سخت مشکلات اور تکلیف میں کو برداشت کرکے کامیابی کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ وہ قدرت کی جن نعمتوں سے محروم ہوتے ہیں ان کے علاوہ اپنی دیگر صلاحیوں کو بروئے کار لاکر معاشرے میں عظیم کارنامے سرانجام دیتے ہیں اور اپنا مقام پیدا کرتے ہیں اور عزت و وقار سے جیتے ہیں۔ اس انسانی کتاب کی اشاعت کا مقصد معاشرے کو اُن کے برے رویوں کا ادراک اور احساس دلانا ہے۔