Please login...
نام : قمراسلام
میرا نام قمراسلام ہے۔ میں جب بچپن میں تھا تو علامہ اقبال کے اِس مصرعے نے میرے ننھے سے دماغ کو بہت متاثر کیا کہ "میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا"۔ آہستہ آہستہ یہ خیال ایک تناور درخت بن گیا اور میری زندگی بدلنا شروع ہو گئی۔ بچپن میں سکول جاتے ہوئے کچھ بچوں کو کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر دیکھ کر دل افسردہ ہو جاتا۔ اپنے کچے سے ذہن میں یہی سوچتا کہ ان کے والدین کیسے ظالم ہیں جو انہیں کوڑا چننے بھیج دیتے ہیں، اگر یہ بچے کسی اچھے گھر میں پیدا ہوتے تو یہ کسی شہزادے سے کم نہ ہوتے اور ساتھ ہی ان بچوں کو اپنے تخیل میں شہزادہ سمجھنا شروع کر دیتا۔ میں ایسے بچوں کو دیکھ کر دل میں یہی دعا کرتا کہ اے اللہ مجھے اس قابل بنا کہ میں ان کی مدد کرسکوں۔ وقت گزرتا گیا میں اسی طرح دعا کرتا رہا۔ بلآخر میں نے ایک تنظیم میں شمولیت اختیار کی جہاں سٹریٹ چائلڈ اور لیبر چائلڈ کو پڑھایا جاتا تھا۔ اس دن میری کیفیت یہ تھی کہ شاید مجھے سب کچھ مل گیا ہو۔ آفس سے گھر جاتے ہوئے راستے میں صرف آنسو ہی تھے جو میرے ہمسفر تھے۔ اس کے بعد سے میری زندگی میں عجیب سا سکون اور اطمینان تھا۔ جو مجھے برسوں بعد ملا۔ اس سفر میں زندگی نے مجھے جو سکھایا شاید کوئی اور نہ سکھا پاتا کیونکہ میں نے ان سے سیکھا ہے جنہیں دنیا چھوٹو کے نام سے جانتی ہے مگر وہ واقعی اپنے گھر کے بڑے ہوتے ہیں۔ آج تک الحمدللہ سنکروں بچوں کو سکول داخل کروا کر ان کی زندگی کو ایک نیا سفر دیے چکا ہون اور میرا سفر بھی ابھی جاری ہے۔
درج بالا تحریر صرف ایک تحریر نہیں بلکہ قمراسلام کے احساسات اور جذبات کی کہانی ہیں۔ معاشرے کے اس طبقے کے متعلق جسے معاشرہ قبول نہیں کرتا۔ یہ جذبات ہیں ایسے قوم کے معماروں کے متعلق جسے لوگ تعصب اور حقارت کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان ہی بچوں نے اس ملک کو آگے لے کر چلنا ہے جو خود اعتمادی سے خالی ہیں ۔ جن کو فقط چند ٹکروں کے لیے معذور اور اپاہج کردیا جاتا۔ میری یہ معمولی سی کاوش ہر اس صاحب نظر کے لئے ہےجو اس ملک کو سنوارنا چاہتا ہے، اپنی نسلوں کی حفاظت کرنا چاہتا ہے۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
جہاں کچھ لوگ ان ننھی کلیوں کو زندگی دیتے ہیں وہیں کچھ ایسے گھنئونے چہرے بھی پائے جاتے ہیں جو ان کو کچل دیتےہیں۔ ان کی صلاحیتوں کا خون کردیا جاتا ہے، مگر بے حس معاشرہ یہ ظلم ہونے دیتا ہے۔ وہ والدین اپنے ہاتھوں سے ان معصوم جانوں کا سودا کر دیتے ہیں۔ اگر اس کو مزید قریب سے دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ شاید ان کے نزدیک خدا ان سے روٹھا ہوا ہے۔ مالکان کے ہاتھوں ہونے والے تشدد سے وہ بچے خود کو معاشرے کا ایک دھتکارہ ہوا حیوان سمجھتے ہیں، مگر ان بچوں سا حساس بھی مجھے کہیں نہیں ملا ۔ایک ایسے بچے کو نئی زندگی دینا جو زندگی سے روٹھ چکا ہو میرے نزدیک ایک عبادت تھی جو میں کرتا رہا۔