Please login...
نام : ( مشی خان ) امانت
" اکیسویں صدی کا مہذب ، وسیع النظر اور کشادہ دل انسانی معاشرہ ، انسانوں کے ساتھ ساتھ حیوانات ونباتات کی فلاح کو بے تاب معاشرہ، خواجہ سرا ؤں کی خاندان سے بے دخلی، آئینی حقوق کی عدم فراہمی ، بدنامی، غربت اور حتیٰ کہ قتل کا بھی مرتکب ہو رہا ہے۔ پاکستان میں 2016 میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق 42 فیصد خواجہ سراکمیونٹی ناخواندہ ہے۔ جن میں 51 فیصد رقص ، 15 فیصد جنسی کام اور 12 فیصد بھیک مانگنے پر انحصار کرتے ہیں جبکہ پاکستان میں جنسی کام اور بھیک مانگنا غیر قانونی اور رقص مذہبی طور پر ممنو ع ہے۔" خواجہ سراؤں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی مشی خان جو خود خاندانی سے بے دخلی،سماجی عدم برداشت،صنفی تعصب ، معاشرتی ہراسگی کا سامنا کرچکی ہیں ، کی رائے میں ،تمام انسانی حقوق کی تنظیمیں، انصاف فراہم کرنے والے ادارے ، حکومتیں ، برابری و سماجی انصا ف کا پرچار کرتے مذہبی ادارے و رہنما خواجہ سراؤں کو تحفظ و حقوق کی فراہمی یقینی بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ چغتائی پبلک لائبریری انتظامیہ محترمہ مشی خان کی بے حد ممنون ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو ہیومین لائبریری پروجیکٹ میں بطور انسانی کتاب متعارف ہونے میں اپنی گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ وہ اپنے قارئین کو سکھانا چاہتی ہیں کہ وہ بھی ان ہی کی طرح ایک انسان ہے۔ لہذٰا معاشرہ میں موجود خواجہ سراؤں کوبنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔ وہ اپنی قاری کو تلخ اور ناشائستہ سماجی رویوں اپنی کمیونٹی کے دکھوں، محرومیوں، محسوسات اور درپیش مسائل سے آگاہی دینا چاہتی ہیں۔ان کا مقصد خواجہ سراء کمونٹی کو عزت واحترام، روزگار کے یکساں مواقع، تعلیم کی یکساں فراہمی،صنفی امتیازات سے نجات دلانا ہے۔
یہ انسانی کتاب چاہتی ہیں کہ اس کا قاری غور کرے کہ اس مہذب دنیا کی ہر ثقافت و خطےنے تاریخ کے ہر دور میں تمام اختلافات کے باوجود خواجہ سراؤں سے تعصب کیوں روا رکھا؟ ہر مذہب اور معاشرہ ان کے حقوق سے انکاری کیوں ہے؟ کل نوآباد دنیا کو تہذیب سے روشناس کروانے کی دعویٰ دار اور آج خواجہ سراؤں کے حقوق کی محافظ سلطنت برطانیہ نے جنوبی ایشیا میں خواجہ سراؤں کو معتوب کرنے کے لئے مجرمانہ قبائل ایکٹ 1871ء کیوں نافذ کیاتھا؟ جس کا اثر 1949 میں اس کی منسوخی ،2009 میں خواجہ سرا وں کےحقوق سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ، 2012 میں ووٹ اور جائیداد کے حقوق فراہمی، 2016 میں قومی مردم شماری میں شمولیت بھی زائل نہ کر سکے۔اور 2018 میں ٹرانس جینڈر رائٹس پروٹیکشن ایکٹ کی منظوری کے باوجود وہ بے روزگار ، بے گھراور کم تعلیم یافتہ کیوں ہیں؟
دنیا کے تمام خطوں میں آباد خواجہ سرا کمیونٹی معاشرے کی دیگر افراد کی طرف سے تعصب، نفرت، عدم برداشت اور ہراسگی کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔ برصغیر میں بسنے والے خواجہ سرا دیگر سماجی طبقات کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر امتیازات اور دقیانوسیت کا سامنا کرتے ہیں۔انہیں گھروں، بازاروں، تعلیمی اداروں اور کام کی جگہوں پر زچ کرنا معمول کی بات ہے۔ اس امتیاز ، تعصب اور دقیانوسیت کا خاتمہ والدین ، اساتذہ اور مذہبی رہنماؤں کی ہم آہنگ سماجی تربیت سے ممکن ہے۔
مسئلہ خواجہ سرا کمیونٹی کی منفرد شناخت یا الگ نظر آنے میں نہیں بلکہ ہماری معاشرتی صنفی گروہوں کی تنگ نظری ، جاہلیت ہوس اور عدم برداشت کا ہے۔ معاشرتی مساوات، سماجی انصاف، کشادہ دلی ، اعلیٰ ظرفی جیسی معاشرتی اقدار کافروغ تمام انسانی گروہوں کی یکساں ترقی اور بہبود یقینی بنا سکتا ہے